Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

روزہ شوگر کے مریضوں کیلئے تحفہ (پروفیسرعبدالرحمن‘ کراچی)

ماہنامہ عبقری - اگست 2011ء

اگر مریض دوران رمضان روزہ رکھے اور مناسب ادویات لیتا رہے تو یہ اس کیلئے بہت فائدہ مند ہے کیونکہ شوگر کے مریض کے خون میں انسولین کی تعداد کم اور شوگر کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور روزہ دار کے خون میں موجود یہ شوگر دوران روزہ آہستہ آہستہ استعمال ہوتی رہتی ہے اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ لو گ بیماری کا بہانہ بنا کر روزہ کے فرض سے بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور بیمار کو دی گئی رعایت کا غلط استعمال کرتے ہیں جو کہ ایک غلط روایت اور نامناسب روش ہے حالانکہ حقیقت حال یہ ہے کہ روزہ بذات خود علاج ہے جس سے جسم بیشتر بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے اور بیماری میں جسم کو سکون و آرام پہنچاتا ہے جیسے بلڈپریشر‘ جوڑوں کا درد‘ دل کے امراض‘ فالج‘ لقوہ‘ نظام ہضم کی خرابی‘ فساد الدم‘ کولیسٹرول کی زیادتی اور ذیابیطس وغیرہ میں بے حد مفید ہے۔ روزہ دراصل بسیار خوری سے روکتا ہے اور ایک تو اسراف سے بچاتا ہے اور دوسری طرف غریبوں اور بھوکوں سے ہمدردی کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ یہ جو لوگ معمولی تکلیف یا بیماری کا بہانہ بنا کر روزہ نہیں رکھتے بالکل غیر شرعی اور غیراخلاقی ہے کیونکہ روزہ رکھنے سے مرض بڑھتا نہیں بلکہ مرض کی شدت میں کمی آجاتی ہے۔ ہاں بعض امراض کیلئے چھوٹ رکھی ہے۔ ایک اور خیال عام ہے کہ روزہ سے انسان جسمانی طور پر کمزور ہوجاتا ہے جبکہ خوشگوار حقیقت یہ ہے کہ روزہ دار کے جسم میں دوسرے افراد کی نسبت قوت مدافعت کئی گنابڑھ جاتی ہے۔ وہ اس طرح کہ سال میں ایک ماہ کے روزے رکھنے سے جسم انسانی کی اندرونی مشینری مثلاً معدہ و جگر اور دوسرے اعضاءجو شب و روز غذا کو تحلیل و ہضم کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ روزہ کی حالت میں ان کو آرام کرنے کا موقع میسر آجاتا ہے اور مسلسل مصروف عمل ہونے سے پیدا ہونے والی کمزوری ختم ہوجاتی ہے اور اندرونی اعضاءکی تحریک میں تیزی آجاتی ہے اور یہ بات تو ہر خاص و عام جانتا ہے کہ آرام و سکون کے بعد کام کرنے کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے۔ لہٰذا روزہ دار کے معدہ و جگر کو آرام ملنے سے غذا اچھی طرح ہضم ہوکر توانائی پہنچتی ہے۔ اطباء(معالجین) اس بات پر متفق ہیں کہ جسم میں جتنا گندا مواد جمع ہوچکا ہوتا ہے وہ روزہ کی وجہ سے جل جاتا ہے اور اعضائے رئیسہ کو جلا ملتی ہے جس سے وہ بہتر طور پر کام کرتے ہیں۔ اعضاءکا بہتر کام کرنا ہی اچھی صحت کیلئے ضروری ہے۔ غیرمسلم اطباءنے بھی اس کی افادیت کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ اس کی تقلید کی تاکید کی ہے۔ مثلاً ڈاکٹر ڈی جیکٹ کہتا ہے کہ روزہ رکھنا امراض کی روک تھام کیلئے حفظ ماتقدم کی حیثیت رکھتا ہے اور ڈاکٹر جوزف کا کہنا ہے کہ روزہ سے ظاہر اور باطن کی غلاظتیں دور ہوتی ہیں اور روزہ روحانی و جسمانی خرابیوں کا دافع ہے کئی دیگر غیرمسلم اطباءمسلمانوں کے (ہمارے) طریقہ کے مطابق روزہ رکھنے کو بہترین سمجھتے ہیں۔ روزہ چونکہ جگر و معدہ کے عمل کو درست کرتا اور بسیار خوری سے بچاتا ہے اس وجہ سے ذیابیطس میں تو بہت ہی فائدہ مند ہے۔ معالجین کا اس بات پر پورا اتفاق ہے کہ ذیابیطس کا بنیادی سبب نظام انہضام کی خرابی اور جگر کے فعل میں خرابی ہے۔ اس قاعدہ کے مطابق اگر ہاضمہ درست ہے تو ذیابیطس کے پیدا ہونے کا ایک فیصدی بھی امکان نہیں رہتا۔ عام خیال ہے کہ روزہ ذیابیطس کے مریضوں کیلئے متعدد مشکلات کا باعث بنتا ہے جو کہ سراسر غلط‘ بے بنیاد اور غیرطبی رائے ہے۔ ہاں البتہ مرض کی شدت میں روزہ نہ رکھنا چاہیے تو اس میں ذیابیطس کی تخصیص نہیں۔ کسی بھی مرض کی شدت میں روزہ نہ رکھنا عین اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا ہے۔ رمضان المبارک میں روزہ رکھنے کی وجہ سے ذیابیطس کے وہ مریض جو انسولین کے ذریعے علاج کرواتے ہیں ان کو گلوکوز کنٹرول رکھنے میں مشکل پیش آسکتی ہے۔ اس لیے وہ سحری کے وقت لینے والی انسولین کی خوراک کم کرکے خون میں گلوکوز کی تعداد زیادہ کردینے کا باعث بھی بن سکتی ہے او رپھر افطاری کے وقت جو بے تحاشہ کھانا کھایا جاتا ہے وہ بھی خون میں گلوکوز کی زیادتی کا باعث بنتا ہے چنانچہ رمضان المبارک ذیابیطس کے مریض اور معالج دونوں کیلئے خون میں گلوکوز کی کمی کے خوف کے ساتھ آتا ہے لیکن اس طرح گھبرانے کی ضرورت بالکل بھی نہیں ہے کیونکہ رمضان کے روزے مریض و معالج کیلئے مشکلات پیدا نہیں کرتے بلکہ مریضوں کا شوگر لیول نارمل ہوجاتا ہے جبکہ روزہ نہ رکھنے والے مریضوں میں گلوکوز (شوگر) کی سطح اتار چڑھائو کا شکار رہتی ہے۔ اس بات کا پتا کچھ اس طرح چلا ہے کہ ایک تحقیق میں نصیر انسٹیٹیوٹ (قاہرہ)‘ کنگ خالد یونیورسٹی (سعودی عرب)‘ امیری ہسپتال (کویت)‘ بزیرہ ہسپتال(ابوظہبی) جناح پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل سنٹر (کراچی پاکستان) اور اکرم میڈیکل کمپلیکس لاہور کے سربراہ ڈاکٹروں نے حصہ لیا۔ اس تحقیقی تجربے میں ستر مریضوں کا چنائو کیا گیا تاکہ ان کے جسم پر روزہ کے اثرات کو دیکھا جاسکے اور پتا چلایا جاسکے کہ ذیابیطس میں روزہ رکھا جاسکتا ہے یا نہیں۔ ذیابیطس کے ان ستر مریضوں کو دو ماہ میں دو مرتبہ چیک کیا گیا اولاً رمضان المبارک سے ایک ماہ قبل چیک کیا گیا اور ان کا شوگر لیول نوٹ کرلیا گیا پھر رمضان المبارک سے ایک دن قبل شوگر لیول نوٹ کیاگیا۔ کچھ مریضوں کو روزے رکھوائے گئے اور کچھ مریضوں کو روزے نہ رکھوائے گئے جن مریضوں کو روزے رکھوائے گئے ان مریضوں کو سحری کے کھانے سے آدھ گھنٹہ قبل انجکشن دیا گیا۔ اس انجکشن کے ذریعے سپرو انسولین مریض کو دی گئی جو قدرے کم طاقت کی ہوتی ہے۔ بعدازاں اسی مریض کو افطاری کے آدھ گھنٹہ بعد کھانے سے قبل این پی ایچ انسولین کا انجکشن دیا گیا۔ جن مریضوں کو روزہ رکھوایا گیا ان کو باقاعدہ ادویات استعمال کروائی گئیں۔ اس طرح پورا رمضان المبارک یہ عمل چلتا رہا اور شوگر لیول چیک ہوتا رہا جس سے یہ معلوم ہوا کہ پورے رمضان کے روزے رکھنے والے مریضوں کی ذیابیطس (شوگر) نارمل ہوچکی تھی جبکہ روزہ نہ رکھنے والے مریضوں کا شوگر لیول اتر چڑھائو کا شکار تھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ روزہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بالکل بے ضرر اور بہت مفید ہے۔ اگر مریض دوران رمضان روزہ رکھے اور مناسب ادویات لیتا رہے تو یہ اس کیلئے بہت فائدہ مند ہے کیونکہ شوگر کے مریض کے خون میں انسولین کی تعداد کم اور شوگر کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور روزہ دار کے خون میں موجود یہ شوگر دوران روزہ آہستہ آہستہ استعمال ہوتی رہتی ہے۔ علاوہ ازیں چونکہ مریض دوران روزہ کھاتا پیتا کچھ نہیں اس لیے خوراک سے حاصل ہونے والی گلوکوز (شکر) کی مقدار بارہ سے چودہ گھنٹے تک ملنا بند ہوجاتی ہے اور پھر سحری اور افطاری کے وقت انسولین کی مناسب مقدار مہیا ہوجانے سے جسم میں بڑے مثبت نتائج مرتب ہوتے ہیں اور مریض صحت یابی کی راہ پر گامزن ہوجاتا ہے بلکہ اگر غیررمضان میں بھی یہ طریقہ اپنایا جائے تو نہ صرف شوگر لیول کنٹرول ہوگا بلکہ شوگر کی وجہ سے ہونے والی کمزوری بھی نہیں ہوگی اور قوت مدافعت بڑھے گی اور شوگر کی وجہ سے ہونے والی دماغ کی سوجن‘ کالاموتیا‘ اندھاپن‘ جگر اور گردوں کی خرابی کے خطرات بھی بڑی حد تک ختم ہوجاتے ہیں۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 394 reviews.